تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। شہید سعید فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔
آپ نے شوشتر میں اپنے والد ماجد سے فقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر سنہ 979 ہجری میں تجربہ کار اساتذہ سے مزید کسب فیض کے لئے مشہد مقدس تشریف لے گئے۔
شہید عالی قدر نے مشہد میں علامہ عبدالوحید شوشتری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے درس میں شرکت کی اور ان سے فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے مولا محمد ادیب قاری تستری کے درس میں بھی شرکت کی اور عربی ادب اور تجوید قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح دیگر ذی استعداد اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا جنمیں مولا عبدالرشید شوشتری و مولا عبدالوحید تستری کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔
شہید بزرگوار نے 993ھ میں ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کے شہر آگرہ میں سکونت اختیار کی۔ چونکہ آپ تقیہ میں تھے اس لئے پانچ مذاہب شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کے مطابق فقہ کی تعلیم دیتے تھے اور تمام فقہی مسائل میں شیعہ امامیہ فقہ کے نظریہ کو ترجیح دیتے تھے۔
تالیفات
شہید ثالث نے منصب قضاوت کے علاوہ بہت سی کتابیں مذہب حقہ اہلبیت علیہم السلام کے لئے تالیف فرمائیں۔ بعض حضرات نے آپ کی ایک سو چالیس کتابوں کے نام بھی ذکر کئے ہیں۔ ذیل میں کچھ کتابوں کا تذکرہ پیش ہے۔
احقاق الحق: مذہب حقہ تشیع کے اثبات میں شہید سعید قاضی نوراللہ شوشتری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فضل بن روزبھان کی کتاب ابطال الباطل کا مدلل اور منطقی جواب دیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں سے اس کے نظریات کو باطل قرار دیا ہے۔
مجالس المومنین علماء، حکماء، ادباء، عرفاء، شعراء، علم رجال کے ماہرین اور راویوں کا تذکرہ کیا ہے جو سب کے سب آپ کے مطابق شیعہ تھے۔
اسی طرح آپ کی دیگر گرانقدر کتابیں ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسے الصوارم المهرقه در جواب الصواعق المحرقه، اجوبه مسایل السید حسن الغزنوی، الزام النواصب فی الرد علی میرزا مخدوم الشریفی، القام الحجر در رد ابن حجر، بحر الغزیر فی تقدیر ماءالکثیر، بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر، تفسیر القران، آیه رویا کی تفسیر، تحفه العقول، حل العقول، حاشیه بر شرح الکافیه جامی، حاشیه بر حاشیه چلپی، حاشیه بر مطول تفتازانی، حاشیه بر رجال کشی، حاشیه بر تهذیب الاحکام شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ، حاشیه بر کنز العرفان فاضل مقداد، حاشیه بر تهذیب المنطق دوانی، حاشیه بر شرح قواعد العقاید، حاشیه بر شرح مواقف در علم کلام، دیوان القصاید، دیوان الشعر، دافعه الشقاق، الذکر الابقی، رساله لطیفه، انما المشرکون نجس کی تفسیر پر کتاب، العصمه کے سلسلہ میں کتاب، تجدید وضو کے سلسلہ میں کتاب، شراب کی نجاست پر کتاب وغیرہ۔
منصب قضاوت
شہید قاضی نور اللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک عام شیعہ تھے بلکہ مذہب حقہ کے عظیم مبلغ اور پاسبان بھی تھے اور امام علی رضا علیہ السلام کی معروف حدیث "لاَ دِينَ لِمَنْ لاَ وَرَعَ لَهُ وَ لاَ إِيمَانَ لِمَنْ لاَ تَقِيَّةَ لَهُ" یعنی جو پرہیزگار نہیں وہ دیندار نہیں اور جو تقیہ نہ کرے وہ باایمان نہیں ہے، پر عمل پیرا تھے۔ لہذا اسی تقیہ کے سبب آپ کو مغل بادشاہ اکبر نے قاضی منتخب کیا۔
قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس عہدے کو قبول کرنے سے منع کیا لیکن جب اکبر بادشاہ نے اصرار کیا تو آپ نے اس شرط پر قبول کیا کہ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کریں گے اور ان کا فیصلہ اہل سنت کی چار فقہوں میں سے کسی ایک کے موافق ہو گا۔
اہل سنت کے معروف عالم عبدالقادر بدوانی نے بیان کیا کہ "قاضی نور اللہ اگرچہ شیعہ ہیں، لیکن ان میں عدل، نیکی، حیا، تقویٰ و پرہیزگاری، عفت و عصمت اور اشراف کے صفات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور وہ اپنے علم، صبر، فہم، نفاست اور پاکیزگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ قابل قدر کتابیں تصنیف فرمائیں، حکیم ابوالفتح کے ذریعہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور جب منصور کا قافلہ لاہور پہنچا اور منصور نے لاہور کے قاضی شیخ معین کو بڑھاپے اور قضائی امور میں کمزور پایا تو سید نوراللہ شوشتری کو قاضی معین کیا۔
شہادت
مغل بادشاہ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر بادشاہ ہوا جو کہ انتہائی درجہ متعصب اور سفاک تھا۔ اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی آج تک یہی رہی کہ اس ظالم و جابر، سفاک و خونریز کو عدل و انصاف کا علمبردار بتایا گیا لیکن قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کا بے جرم و خطا قتل اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے واضح کرتا رہے گا۔
جہانگیر پلید کی پست صفات کے سبب قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین اور دشمنوں کو موقع مل گیا کہ وہ آپ کے حقیقی دین کو واضح کریں لہذا جاسوس معین کیا جو شاگرد بن کر شہید عالی قدر کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اتنا قریب ہوا کہ آپ کو اس پر اس قدر اعتبار ہو گیا کہ آپ نے اسے اپنی کتاب "احقاق الحق" کا ایک نسخہ لکھنے کو دے دیا۔ کتاب کا ملنا تھا کہ آپ کے سارے دشمن جہانگیر ملعون کے پاس گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ آپ کو سزا دی جائے۔ جہانگیر ملعون نے حکم دیا کہ آپ کو برہنہ کر کے بدن پر خاردار کوڑے لگائے جائیں، جلاد نے اتنے کوڑے مارے کہ آپ کے جسم کا گوشت کٹ کٹ کر آپ کے بدن سے جدا ہو گیا اور آپ شہید ہو گئے۔ مورخین کے مطابق شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 18 جمادی الثانی 1019 ہجری کو آگرہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد بے غسل و کفن آپ کے جنازہ کو مزبلہ پر پھینک دیا گیا جسے بعد میں دفن کیا گیا۔ دشمن نے اپنے خیال خام میں سمجھا کہ قتل سے آپ کا خاتمہ ہو گیا، بے شک قتل خاتمہ ہے لیکن شہادت خاتمہ نہیں بلکہ علامت بقا ہے۔ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں اور آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں گمنام ہو گئے۔
خدایا! ہمیں شہید اور شہادت کی معرفت عطا فرما۔ آمین